عظمت مصطفی
Join us and feel the experience and the warmth of fellowship, the joy of worship, and the power of knowledge.
آپ کو معلوم ہے میرا آج کا موضوع ’’عظمت ِ مصطفی ﷺ ‘‘ ہے. اس موضوع پر سب سے پہلے مجھے یہ تمہیدی بات آپ کے گوش گزار کرنی ہے کہ نبی اکرمﷺ کی شخصیت کی عظمت کے مختلف پہلو ہیں. ایک تو آپؐ ‘کا مقام و مرتبہ اور آپؐ کی عظمت بحیثیت نبی ہے اور ایک آپؐ ‘ کی عظمت اور آپؐ ‘کا مقامِ رفیع و بلند بحیثیت انسان ہے. پھر انسان کی حیثیت سے بھی ایک پہلو روحانیات کا ہے‘ یعنی آپﷺ کا مقام و مرتبہ روحانی اعتبار سے اور دوسرا پہلو عام عام انسانی معاملات کا ہے‘ جن میں سے انسان اپنی زندگی کے دوران لامحالہ گزرتا ہے اور مختلف حیثیتوں سے اس دنیا میں کام کرتا ہے. عظمت محمدیؐ کے یہ جو مختلف پہلو ہیں‘ ان میں بعض پہلوؤں کے اعتبار سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آپﷺ کی عظمت کا بیان تو درکنار اس کا ادراک و شعور اور فہم بھی ہمارے لیے ناممکنات میں سے ہے.
Those who are merciful will be shown mercy by the Most Merciful. Be merciful to those on the earth and the One in the heavens will have mercy upon you.
Sunan At-Tirmidhi
سادہ سی مثال ہے کہ ایک معالج‘ ڈاکٹر یا حکیم کا اپنے فن میں کیا مقام و مرتبہ ہے‘ ظاہر ہے اسے صرف کوئی ڈاکٹر‘ حکیم یا معالج ہی جان سکتا ہے. اسی طرح ایک انجینئر کا اپنے فن میں کیا مقام و مرتبہ ہے‘ ظاہر ہے اس سے کوئی انجینئر ہی واقف ہو سکتا ہے لہذا ایک نبی کی حیثیت سے نبی اکرمﷺ کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ یہ صرف کسی نبی ہی کے لیے ممکن ہے کہ اس کا اندازہ کر سکے‘ کسی غیر نبی کے لیے یہ محالِ عقلی ہے. مزید برآں کسی انسان کا کسی ادارے یا فرم میں کیا مقام و مرتبہ ہے اس کا صحیح تعین وہی شخص کر سکتا ہے جو اس ادارے میں اس سے بالاتر ہو‘ اس لیے کہ نیچے والا تو اوپر کی طرف صرف دیکھے گا‘ اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اپنے سے بلند مقام کے حامل شخص کا اصل مقام و مرتبہ معین کر سکے. ظاہر بات ہے نبی اکرمﷺ سے بالاتر مقام کسی نبی کا نہیں‘ لہٰذا کسی نبی کے لیے بھی یہ محالِ عقلی ہے کہ حضورﷺ کے اصل مقام و مرتبہ کو سمجھ سکے‘ کجا یہ کہ کوئی عام انسان اور غیر نبی حضورﷺ کے مقام کا تعین کرے. اسی طرح روحانی اعتبار سے حضورﷺ کا مقام کیا ہے؟ ظاہر بات ہے ہم جیسے لوگوں کے لیے اس کا ادراک و شعور ممکن نہیں.
بعض اعتبارات سے خود حضورﷺ نے اسے واضح کیا ہے کہ یہ تمہارے لیے ناممکن ہے کہ تم ان مقامات کو سمجھ سکو! مثال کے طور پر حضورﷺ صومِ وصال رکھتے تھے. صومِ وصال یہ ہے کہ آج روزہ رکھا اور شام کو افطار نہیں کیا اور وہی روزہ رات سے گزر کر اگلے دن تک چلا ‘ اور اگر اگلے دن شام کو افطار کیا گیا تو یہ دودن کا صومِ وصال ہوا‘ اور اگر یہی روزہ تیسرے دن تک چلا تو وہ تین دن کا صومِ وصال ہو گا. نبی اکرمﷺ خو د صومِ وصال رکھتے تھے لیکن آپﷺ نے اپنے ساتھیوں (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو یہ روزہ رکھنے سے روکے رکھا. اس پر کسی صحابیؓنے سوال کر لیا تو آپؐ نے فرمایا: وَاَیُّــکُمْ مِّثْلِیْ ’’تم میں سے کون ہے جو میرے مانند ہو؟‘‘ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ ’’میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا ربّ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘. (۱)ہمارے لیے کس طرح ممکن ہے کہ آپﷺ کی اس شب بسری کا تصور کر سکیں جو اللہ کے ہاں ہوتی تھی‘ اس کی نوعیت اور اس کی کیفیت کیا تھی! وہ کھلانا اور پلانا کس نوعیت کا تھا! معلوم ہوا کہ یہ چیز ہمارے دائرے سے خارج ہے. میں سمجھتا ہوںبڑے سے بڑے صوفی اور بڑے سے بڑے ولی اللہ کے لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ حضورﷺ کے روحانی مقام کا پورا پورا ادراک کر سکے.
ان دونوں پہلوؤں سے جب ہماری عقلیں‘ ہمارا فہم اور شعور و ادراک عاجز ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اس کو بیان کرنے کی کوشش کرنا بھی بہت بڑی خطا ہے. یہ بڑی خطا کس اعتبارسے ہے؟ ایک سادہ سی مثال سے بات سمجھ میں آجائے گی. کسی دیہاتی کی کوئی مشکل تھی جسے کس شہری بابو نے حل کر دیا‘ وہ شہری شخص ڈپٹی کمشنر تھا‘ لیکن اس دیہاتی نے اسے دعا دی کہ خدا تجھے پٹواری بنا دے.اس لیے کہ اس دیہاتی کے نزدیک تو سب سے بڑا عہدہ اور سب سے زیادہ صاحبِ اختیار ہستی پٹواری کی تھی‘ کیونکہ اس کی ذرا سی جنبش قلم سے زمین کسی اور کے نام ہو جاتی ہے اور اسی کی قلم جنبش سے مالیانہ معاف ہو جاتا ہے. اس کاشت کار اور دیہاتی سے متعلق سارے اختیارات تو پٹواری کے ہاتھ میں ہوتے ہیں. اسے کیا معلوم کہ پٹواری سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک کتنے عہدے درمیان میں ہیں اور وہ شخص کس بلند مقام پر فائز ہے جسے وہ دیہاتی پٹواری بننے کی دعا دے رہا ہے.چنانچہ اگر ہم حضورﷺ کے مقاماتِ عالیہ کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے تو شدید خطرہ ہے کہ ہم حضورﷺ کی توہین کے مرتکب ہو جائیں. اس لیے کہ آپﷺ کے مقام کا کماحقہ ٗ بیان ممکن نہیں. اور جب کماحقہ ٗ بیان ممکن نہیں ہے تو ہم اپنے تصور کے مطابق بیان کریں گے‘ جو حضورﷺ کے اصل مقام و مرتبہ سے بہت کمتر ہو گا. اور اسی کا نام توہین ہے. شیخ سعدیؒ نے نہایت سادگی کے ساتھ اس ساری بحث کو ایک رباعی میں سمو دیا ہے ؎
مِن وَجْھِکَ الْمُنِیْر لَقَدْ نُوِّرَ القَمر
لَا یُمْکِنُ الثَّناءَ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قِصّہ مختصر
حضورﷺ کی ثناء کا جتنا حق ہے وہ ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے‘ لہذا ’’لَا یُمْکِنُ الثَّـنَائَ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ‘‘ ہمیں بس یہ کہہ کر اس بات کے دامن میں پناہ لینی ہے کہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘. اللہ کے بعد آپ ہی کی ہستی عظیم ترین و بلند ترین ہے‘ ہم اسے کس طرح اور کیا بیان کریں؟ ہمارا تصور بلکہ ہمارا تخیل بھی سرنگوں ہے کہ وہ اس بلند و رفیع مقام کا ادراک اور شعور کر سکے. اسی بات کو نہایت خوبصورت انداز میں غالبؔ نے بایں طو رپر بیان کیا ہے ؎
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد ﷺ است!
کہ ہم نے آنحضورﷺ کی ثنا و حمد کو خدا (یزداں) کے حوالے کر دیا ہے. ہم اس کی کوشش ہی نہیں کرتے‘ اس لیے کہ وہی ذاتِ پاک ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے اصل مقام و مرتبہ سے واقف ہے.