Join us and feel the experience and the warmth of fellowship, the joy of worship, and the power of knowledge.
الغرض حضورﷺ کی پورے دس برس کی محنت و مشقت کو ذہن میں رکھئے کہ آپؐ جیسا مبلغ ‘ آپؐ جیسا مربی‘ مزکی اور معلم نہ پہلے پیدا ہوا نہ کبھی ہو سکتا ہے‘ کیونکہ حضورﷺ کی نظیر محالِ مطلق ہے. آپؐ کی نظیر کوئی ہوئی ہے نہ ہو گی. لیکن مکہ میں آپؐ کی دس برس کی شب و روز کی محنت شاقہ کا تصور کیجیے‘ جس میں دن کی مشقت کا یہ عالم ہے کہ اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا آپؐ دن کے اوقات میں گھوم رہے ہیں‘ گلی کوچوں میں تبلیغ کر رہے ہیں‘ گھر گھر جا کر دستک دے رہے ہیں اور رات کی یہ کیفیت ہے کہ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ آپؐ دن میں لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں تو رات کو کھڑے ہو کر جھولی پھیلا کر اللہ سے دعا کر رہے ہیں کہ اے پروردگار!عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے.
Those who are merciful will be shown mercy by the Most Merciful. Be merciful to those on the earth and the One in the heavens will have mercy upon you.
Sunan At-Tirmidhi
لیکن محمد رسول اللہﷺ کی دس برس تک شب و روز کی محنت شاقہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ سو سوا سو یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو افراد آپؐ کے گرد جمع ہو گئے. ۶۱۰ عیسوی میں وحی کا آغاز ہوا تو لگ بھگ ۶۲۰ عیسوی کو حضورﷺ نے عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا. کیونکہ اسی سال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکا انتقال ہو گیا. گھر میں دلجوئی کرنے والی ایک وفادار‘ وفاشعار اور محبت کرنے والی زوجہ محترمہ کا انتقال ہو گیا. ظاہر بات ہے کہ باہر سے آدمی تکدر لے کر آتا ہے تو مونس و غم خوار شریک ِ حیات اسے زائل کرنے میں مددگار ہوتی ہے. کوئی پاگل کہتا ہے‘ کسی نے مجنون کہہ دیا ہے‘ کسی نے شاعر کہہ دیا ہے‘ کسی نے کہا کہ یہ ہم پر دھونس جماتے ہیں‘ انہوں نے ایک عجمی غلام کو اپنے گھر کے اندر بند کر رکھا ہے جو بڑا عالم فاضل ہے‘ تورات اور انجیل کا جاننے والا ہے‘ یہ اس سے ڈکٹیشن لیتے ہیں‘ اسے یاد کر کے پھر ہم پر آ کر دھونس جماتے ہیں. حضورﷺ سب کچھ سنتے تھے. قرآن مجید میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے. آپﷺ کا قلب انتہائی حساس تھا‘ اور یہ باتیں سن کر آپؐ کو رنج اور افسوس ہوتا تھا.چنانچہ فرمایا گیا : وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ یعنی ’’اے نبی! ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس سے آپ کا سینہ بھنچتا ہے‘‘ آپ کو تکدر‘ غم‘ رنج اور افسوس ہوتا ہے کہ یہی تو وہ لوگ تھے جو کبھی میری راہ میں اپنی آنکھیں بچھاتے تھے‘ یہی لوگ مجھے صادق اور امین کا خطاب دیتے تھے‘ یہ مجھ سے انتہائی محبت کرنے والے لوگ تھے‘ لیکن انہی میں سے آج کوئی مجنون کہہ رہا ہے ‘ کوئی پاگل کہہ رہا ہے‘ کوئی شاعر‘ کوئی ساحر‘ کوئی مسحور اور کوئی کذاب کہہ رہا ہے (نقل کفر کفر نباشد)یہ سب کچھ سن کر آپؐ گھر آتے تھے تو گھر پر کوئی تسلی دینے والی تھی‘ لیکن اب وہ نہیں رہی تھی.
امام رازی نے تفسیر کبیر میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جو حضورﷺ کے پچیس سال سے لے کر پچاس سال کی عمر کے درمیان کہیں پیش آیا کہ حضورﷺ ایک دفعہ کہیں مکہ مکرمہ سے باہر نکل گئے. مکہ کے باہر پہاڑوں کے درمیان مختلف وادیاں ہیں‘ ایک وادی میں آپؐ نے دیکھا کہ کوئی قبیلہ آ کر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے جو انتہائی مفلوک الحال ہے‘ جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے‘ تن پر کپڑے نہیں ہیں. ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ گھر آئے اور انتہائی ملول اورغمگین ہو کر چادر لے کر لیٹ گئے. اب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے. آپﷺ نے فرمایا کہ میں فلاں وادی میں گیا تھا اور میں نے دیکھا کہ وہاں ایک قبیلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے جس کا حال یہ ہے. آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس دولت نہیں ہے کہ میں ان کی مدد کروں. کیونکہ سرمایہ تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا‘ آپﷺ کی اپنی ذاتی دولت تو نہیں تھی. اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپؐ جایئے اور قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو بلا لایئے. حضورﷺ انہیں بلا کر لائے تو اتنی دیر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اشرفیوں کا اتنا بڑا ڈھیر لگا دیا کہ جب حضورﷺ آ کر بیٹھے تو اس کے پیچھے چھپ گئے. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سردارانِ قریش سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ سب گواہ رہیں‘ میں نے یہ ساری دولت حضرت محمدﷺ کے حوالے کر دی ہے‘ وہ جیسے چاہیں اسے خرچ کریں. حضرت خدیجہؓ ایسی بیوی تھیں‘ انہوں نے ہر طرح سے آپؐ کا ساتھ دیا. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کیا مقام تھا‘ ہم میں سے اکثر اس سے واقف نہیں. ہمارے ہاں تو بعض محترم شخصیات کے مابین افضلیت کا جھگڑا ہے ع
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکا ایک واقعہ مزید بیان کرتا چلوں. آغازِ وحی کے بعد جبکہ حضورﷺ کو عالم بشریت اور عالمِ ملکیت کے درمیان اتصال کا نیا تجربہ ہوا تھا اور جس کی وجہ سے آپؐ پر خوف کی سی کیفیت تھی اور ایک تشویش کا سا انداز تھا تو ایک روز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپﷺ سے کہا کہ اب جب وہ فرشتہ یا بدروح جو بھی ہے‘ آپؐ کے پاس آئے تو مجھے بتایئے گا. حضرت جبرائیل ؑ آئے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ آ گئے ہیں. اب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپنے بال کھول لیے اور حضورﷺ کو اپنی آغوش میں لے لیا اور پوچھا کہ کیا اب بھی وہ نظر آ رہا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:نہیں! اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے کہا یقیناً یہ بدروح نہیں ہے‘ فرشتہ ہے‘ جس نے حیا کی ہے‘ اگر کوئی بدروح ہوتی تو وہ لذت لیتی اور غائب نہ ہوتی. اب آپ ان کی عظمت فکر‘ سوچ اور شعور کی بلندی کا اندازہ کیجیے.
حضورﷺ نے یہ سارے صدمے جھیلے ہیں.