Join us and feel the experience and the warmth of fellowship, the joy of worship, and the power of knowledge.
ابوطالب کی وفات سے چونکہ حضورﷺ کو حاصل وہ ظاہری تحفظ ختم ہو گیا تھا اور اب اندیشہ تھا کہ قریش دار الندوہ میں جو چاہیں گے فیصلہ کریں گے‘ لہذا آپﷺ ؐ نے طائف کا سفر اختیار فرمایا.یہ حضورﷺ کی مکی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے. حالانکہ اس سے پہلے آپؐ کا شعب بنی ہاشم کے اندر گھیراؤ اور مقاطعہ رہا اور کھانے پینے کی چیزیں روکی گئیں. اس دوران پورے خاندان بنوہاشم کو بدترین قسم کی فاقہ کشی جھیلنی پڑی‘ حالانکہ وہ سب کے سب ایمان تو نہیں لائے تھے‘ لیکن اس جرم کی پاداش میں کہ بنوہاشم محمدﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے‘ اس پورے خاندان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں خاندان بنی ہاشم تین سال تک شعب بنی ہاشم (جسے شعب ابی طالب بھی کہتے ہیں) میں محصور رہا. ان تین سالوں کے دوران کھانے پینے کی کوئی چیز اُن تک نہیں جانے دی گئی. وادی کے دونوں اطراف میں پہرے لگا دیے گئے‘ چنانچہ کوئی وہاں جا ہی نہیں سکتا تھا. حکیم بن حزام جیسا کوئی اللہ کا بندہ جو بنیادی طور پر نیک شخصیت تھی‘ وہ کہیں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اور دوسری طرف نیچے اتر کر کوئی چیز پہنچا دیتے‘ کیونکہ وہ حضرت خدیجہؓ کے بہت قریبی عزیز تھے‘ ورنہ تو وادی کے دونوں سروں پر پہرے تھے . وہ وقت بھی آیا کہ بنوہاشم کے پھول جیسے بچے بلک رہے ہیں اور ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں‘ سوائے اس کے کہ سوکھے ہوئے چمڑے ابال کر پانی ان کے حلق میں ٹپکایا گیا.
Those who are merciful will be shown mercy by the Most Merciful. Be merciful to those on the earth and the One in the heavens will have mercy upon you.
Sunan At-Tirmidhi
طائف جا کر آپﷺ نے وہاں کے تین سرداروں کے سامنے اس اُمید پر اپنی دعوت پیش کی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی دعوت قبول کر لے اور ایمان لے آئے تو میں یہاں منتقل ہو جاؤں اور یہ میرا دار الہجرت بن جائے. لیکن حکمتِ خداوندی اور مشیتِ الٰہی میں یہ شرف یثرب کے لیے طے تھا‘ طائف کے مقدر میں نہ تھا. لیکن حضورﷺ اپنی سوچ بچار کے حوالے سے طائف پہنچے. تینوں سرداروں نے کلیجے سے پار ہونے والے جواب دیئے. ایک نے کہا یہاں سے فوراً روانہ ہو جاؤ‘ اگر تم واقعی رسول ہو اور میں نے کوئی توہین کر دی تو میں مارا جاؤں گا‘ اور اگر تم جھوٹے ہو تو جھوٹے کو میں منہ نہیں لگانا چاہتا. دوسرے نے کہا مکہ اور طائف میں تمہارے سوا اللہ کو رسول بنانے کے لیے کوئی اور نہیں ملا تھا؟ قرآن حکیم میں ان کے یہ دل آزار الفاظ نقل کئے گئے ہیں: وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ ﴿۳۱﴾ (الزخرف:۳۱) ’’ یعنی ان دوبستیوں میں کوئی شخص بڑی عظمت والا ہوتا‘ اس کی جائیداد مکے میں بھی ہوتی اور طائف میں بھی‘ ایسا شخص اللہ کو نبی بنانے کے لیے نہیں ملا تھا؟تم جیسا مفلوک الحال یتیم شخص جس کا اپنا کوئی ذاتی سرمایہ نہیں تھا‘ کوئی سرمایہ تھا تو وہ بھی بیوی کا تھا ‘ یہ شخص اللہ نے چنا ہے؟ بہرحال آپؐ ان سے مایوس ہو کر واپس روانہ ہونے لگے تو ان بدبختوں نے گلیوں کے آوارہ چھوکروں کواشارہ کر دیا کہ ذرا ان کی خبر لو. چنانچہ انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا. حضرت زید بن حارثہؓ نے اس پتھراؤ کا آگے ڈھال بن جانے کی پوری کوشش کی‘ لیکن زید بن حارثہؓ اگر سامنے سے آ کر حضورﷺ کے آگے ڈھال بنتے تو وہ پیچھے سے پتھراؤ شروع کر دیتے اور اگر وہ پیچھے جاتے تو سامنے سے پتھراؤ شروع کر دیتے. تاک تاک کر ٹخنے کی ہڈی کو نشانہ بنایا گیا. آپﷺ کی پنڈلیاں بھی زخموں سے چور ہو گئیں. خون بہہ بہہ کر نعلین کے اندر جا کر جم گیا. وہاں سے آپؐ نکلے‘ ایک جگہ ٹھہرے تو حضورﷺ کی زبانِ مبارک پر فریاد آ گئی:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ‘ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ! اِِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بَعِیْدٍ یَجْھَمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَ اَمْرِیْ؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ! اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ مِنْ اَنْ یَّنْزِلَ بِیْ غَضَبُکَ اَوْ تَحُلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ ‘ لَکَ الْعُتَبِیَ حَتّٰی تَرْضٰی ‘ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِکَ!
’’اے اللہ! میں تیری ہی جناب میں اپنی بے بسی‘ وسائل و ذرائع کی کمی اور لوگوں میں میری جو رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کا شکوہ کرتا ہوں. اے ارحم الراحمین ! تو کمزوروں کا ربّ ہے اور میرا بھی! اے پروردگار! تو مجھے کن کے سپرد کر رہا ہے؟ وہ دور دراز کے لوگ جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ‘ کہ وہ مجھے تختۂ مشق بنا لیں! یا تو نے میرے سارے معاملات کو دشمنوں کے قابو میں دے دیا؟ پھر بھی اگر مجھ پر تیرا غصہ نہیں ہے تو مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘ لیکن کچھ بھی ہو‘ تیری عنایات تو مجھ پر بے پایاں ہیں. میں تیرے چہرۂ انور کے نور کی پناہ میں آتا ہوں جس سے تمام اندھیرے دور ہو جائیں اور جس کے پر تو سے دنیا اور آخرت کا معاملہ درست ہو جائے‘ اس سے کہ مجھ پر تیرا غصہ بھڑکے یا تیرا غضب ٹوٹے‘ منانا ہے‘ اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے. نہ قابو ہے نہ زور ہے ‘ مگر تیری ہی مدد سے.‘‘
میں نے رسول اللہﷺ کی جدوجہد کے پہلے دس برس کی جھلک دکھائی ہے. حضورﷺ کی انقلابی جدوجہد کا عرصہ بیس برس ہے. عرب میں انقلاب کی تکمیل ۸ ہجری میں ہوئی جب مکہ اور طائف فتح ہو گیا اور غزوۂ حنین میں آپﷺ کو فتح حاصل ہوئی.اس طرح عرب میں انقلاب برپا ہو گیا. لہذا مکے کے بارہ برس اور مدینے کے آٹھ برس شامل کر لیجیے تو یہ بیس برس ہوئے. اس عرصے کو دو حصوں میں تقسیم کریں‘ دس سال اِدھر اور دس اُدھر. پہلے دس سال کا حاصل میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے کہ کل ۱۲۵ یا ۱۵۰ افراد ایمان لائے اور طائف سے واپسی پر آپﷺ کی یہ حیثیت نہیں تھی کہ آپؐ مکے میں اپنے بل پر قیام کر سکتے. لہذا آپؐ ایک کافر و مشرک کی امان لے کر مکہ میں دوبارہ داخل ہوئے. یہ دس برس کی محنت شاقہ ہے. لیکن اگلے دس برس میں اسلامی انقلاب نہایت تیزی کے ساتھ مکمل ہوا ہے.