Join us and feel the experience and the warmth of fellowship, the joy of worship, and the power of knowledge.
طائف سے واپسی کے بعد اسی سال ایّامِ حج میں آپؐ مکہ سے باہر مختلف وادیوں میں ٹھہرے ہوئے حاجیوں سے ملاقات کر کے انہیں اسلام کی دعوت پیش کر رہے تھے کہ آپؐ کو یثرب سے آئے ہوئے چھ حاجی مل گئے. آپؐ نے ان کے سامنے اپنی دعوت رکھی. یہ چھ حاجی قبیلہ خزرج سے تھے. یثرب کے یہودی چونکہ یہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب نبی آخر الزماں (ﷺ ) کا ظہور ہونے والا ہے . اور جب ان یہودیوں کے قبیلہ اوس اور خزرج سے جھگڑے ہوتے تھے اور وہ ان قبائل سے مار کھاتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ ابھی تو تم ہمیں دبا لیتے ہو‘ لیکن دیکھو! نبی آخر الزمانﷺ کے ظہور کا وقت قریب ہے‘ جب ہم ان کے ساتھ مل کر لڑیں گے تو تم ہمیں شکست نہیں دے سکو گے. یہودیوں کی یہ باتیں اہل یثرب کے کانوں میں پڑی ہوئی تھیں. لہذا جب یثرب سے آئے ہوئے ان حاجیوں کے سامنے حضورﷺ نے دعوت پیش کی تو انہوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر یہود کرتے ہیں. چنانچہ اس سے پہلے کہ یہودی حضورﷺ پر ایمان لاتے قبیلہ خزرج کے وہ چھ آدمی ایمان لے آئے. واپس مدینے جا کر انہوں نے تھوڑی بہت دعوت دی ہو گی‘ اس کے نتیجے میں اگلے سال حج کے موقع پر بارہ آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی مبلغ و معلم اور مقری دیجیے جو ہمیں قرآن پڑھائے‘ کیونکہ آپ سے تو ہماری ملاقات اب اگلے سال ہو گی.
Those who are merciful will be shown mercy by the Most Merciful. Be merciful to those on the earth and the One in the heavens will have mercy upon you.
Sunan At-Tirmidhi
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۚ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَخۡشَوۡنَ النَّاسَ کَخَشۡیَۃِ اللّٰہِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡیَۃً ۚ وَ قَالُوۡا رَبَّنَا لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ ۚ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ؕ (النساء:۷۷)
مکی سورتوں میں اس حکم کا کہیں ذکر نہیں. یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی خفی کے ذریعے سے ہاتھ بندھے رکھنے کا حکم دیا ہو‘ کیونکہ حضورﷺ پر وحی جلی ہی نہیں وحی خفی بھی آتی تھی. اس سے زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ حضورﷺ کا اپنا تدبر اور آپؐ کی اپنی تدبیر تھی. حضورﷺ کی اپنی سوچی سمجھی رائے تھی کہ کوئی انقلابی جماعت جو ابھی تعداد اور قوت میں تھوڑی ہے‘ اگر وہ پُرتشدد ہو جائے تو وہ کچل دی جائے گی. یہی وجہ ہے کہ تمام تر تشدد کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تشدد نہیں ہوئے. حالانکہ انہیں ستایا اور مارا جا رہا تھا‘ انہیں گھروں میں نظربند کیا جا رہا تھا‘ انہیں بھوکا پیاسا رکھا جا رہا تھا. خاص طور پر غلاموں پر انتہائی تشدد کیا جا رہا تھا. حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والدین حضرت سمیہ اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہماکو تو شہید بھی کر دیا گیا. اس سب کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی گئی. یہ انتہائی حکیمانہ اور انتہائی مدبرانہ انداز ہے. وہ جانتے تھے کہ اس مرحلے پر اگر کہیں جوابی کارروائی ہو جائے تو باطل قوتوں کو ہمیں کچلنے کا پورا جواز مل جائے گا. ابھی تو ہمیں وقت چاہیے کہ ہم اپنی دعوت و تربیت کے ذریعے سے اپنی بنیاد (Base) کو وسیع‘ مستحکم اور مضبوط کریں. اس کو علامہ اقبال نے یوں کہا ہے ع
بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ‘ وَعَلٰی اَنْ نَّـقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیـْنـَمَا کُنَّا‘ لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٌ (۹)
’’ہم نے اللہ کے رسولﷺ سے بیعت کی تھی کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے‘ خواہ مشکل ہو خواہ آسانی ہو‘ خواہ طبیعت آمادہ ہو اور خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے‘ خواہ آپؐدوسروں کو ہم پر ترجیح دے دیں‘ اور جنہیں بھی آپؐ ذمہ دار بنائیں گے ان سے ہم جھگڑے گے نہیں (ان سے تعاون کریں گے) اور جہاں بھی ہوں گے حق بات (اور صحیح مشورہ) ضرور پیش کریں گے‘ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے‘‘.
یہ ایک عظیم بیعت تھی جس سے ایک تنظیم وجود میں آئی.