Join us and feel the experience and the warmth of fellowship, the joy of worship, and the power of knowledge.
یہاں میں آپ کو بتاتا چلا ہوں کہ مستشرقین نے اپنی کوتاہ نظری کے باعث رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مکی اور مدنی دور کے طرزِ عمل کو متضاد قرار دیا ہے. چنانچہ ٹائن بی (Toynbee) نے حضورﷺ کے بارے میں ایک بڑا زہر بھرا جملہ کہا تھا :
Those who are merciful will be shown mercy by the Most Merciful. Be merciful to those on the earth and the One in the heavens will have mercy upon you.
Sunan At-Tirmidhi
اس نے ان دونوں کتابوں میں اپنے تئیں رسول اللہﷺ کی زندگی کے متضاد پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے. اس کا کہنا یہ ہے کہ مکے والا محمد (ﷺ ) کچھ اور ہے‘ مدینے والا کچھ اور. مکے والا محمد (ﷺ ) تو داعی‘ مزکی‘ مبلغ‘ اور درویش ہے اور اس کی سیرت میں واقعتا نبیوں والا نقشہ نظر آتا ہے جبکہ مدینے والا محمد تو ایک مدبر‘ منتظم‘ سٹیٹسمین‘ سیاست دان اور سپہ سالار ہے. اس کے نزدیک یہ دونوں شخصیتیں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں. اس سے قطع نظر کہ “Muhammad at Madina” میں اس نے حضورﷺ کے لیے مدح اور تعریف کے تمام ممکنہ الفاظ کو جمع کر لیا ہے.آپؐ کی دور اندیشی‘ معاملہ فہمی‘ آپؐ کی صحیح صحیح صورت حال کے بارے میں صحیح صحیح اقدام کی صلاحیت‘ آپؐ کی انسان شناسی اور ہر انسان کی ذہنی سطح کا اندازہ کرتے ہوئے اس سے اس کی سطح پر بات کرنا اور ہر انسان سے اس کی صلاحیت و استعداد کے مطابق کام لے لینا جیسی تمام خصوصیات کا تذکرہ اس نے کھلے دل کے ساتھ کیا ہے. اس نے حضورﷺ کی موقع شناسی‘ تدبر اور سیاست وغیرہ کے جتنے بھی اعلیٰ ترین اوصاف ہیں ان کا ذکر افعل التفضیل (Superlative) کے صیغے میں کیا ہے. اس سے ایک مسلمان دھوکا کھاتا ہے کہ یہ کتاب حضورﷺ کی تعریف میں لکھی گئی ہے‘ حالانکہ درحقیقت وہ تضاد (contrast) بیان کر رہا ہے کہ بحیثیت سیاست دان (statesman) تو آپؐ کے یہ اوصاف ہیں جبکہ بحیثیت نبی آپؐ ناکام ہو گئے اور آپؐ کو مکے سے بھاگ کر مدینے میں پناہ لینی پڑی. یہ وہ زہر ہے جو اس نے گھولا ہے. لیکن حضورﷺ کی معاملہ فہمی‘ دور اندیشی اور statesmanship کا اس نے گھٹنے ٹیک کر اعتراف کیا ہے. حضورﷺ کے انہی اوصافِ عالیہ کا شاہکار میثاق مدینہ تھا‘ جس میں آپؐ نے مدینہ میں آباد یہودیوں کے تینوں قبیلوں کو پابند کر لیا. اگرچہ بعد میں وہ ایک ایک کر کے غداری کے مرتکب ہوتے رہے‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ جب وہ غداری بھی کرتے تھے تو چھپ چھپ کر اور ڈرتے ڈرتے‘ کیونکہ وہ اس معاہدے میں جکڑے ہوتے تھے‘ کھلے عام انہیں ان سرگرمیوں کی جرأت نہیں تھی. لہذا درپردہ سازشیں کرتے رہے‘ وہ کبھی مکے والوں کو ابھارتے‘ کبھی کسی اور کو. بعد میں اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے سبب یہودیوں کے تینوں قبائل بنوقینقاع‘ بنوقریظہ اور بنونضیر مدینے سے نکال دیئے گئے.
حضورﷺ نے مدینے میں ابتدائی چھ مہینے مذکورہ بالا تین کاموں کے لیے صرف کیے اور ساتویں مہینے آپؐ نے چھوٹے چھوٹے چھاپہ مار دستے مکے کی طرف بھیجنے شروع کر دیئے. اب یہ باطل کو چیلنج دینے کا انداز ہے. غزوۂ بدر سے پہلے پہلے آپؐ نے ایسی آٹھ مہمیں روانہ کیں. بدقسمتی سے سیرت کی وہ کتابیں جو انگریزی دور میں لکھی گئیں ان کے مؤلفین نے ان واقعات کو اہمیت نہیں دی اور انہیں چھپایا ہے. یہاں تک کہ علامہ شبلی نعمانی نے بھی ان کو نقل نہیں کیا. اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ رسول اللہﷺ کے ان اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد جنگ کا آغاز محمد رسول اللہﷺ کی طرف سے ہوا‘ قریش مکہ کی طرف سے نہیں. جبکہ یورپی استعمار کے دور میں ہمارے اوپر یہ تنقید ہوتی تھی کہ اسلام تو تلوار سے پھیلا ہے ع
ان مہمات کا مقصد ایک تو قریش کو چیلنج کرنا اور دوسرے مکہ کی معاشی ناکہ بندی (Economic Blockade) تھا کیونکہ اہل مکہ کی معاش کا دار و مدار کلیتاً تجارت پر تھا.ان کے تجارتی قافلے شمالاً جنوباً سفر کرتے تھے. شمال میں شام کی طرف جانے والا قافلہ بدر سے ہو کر گزرتا تھا. بدر مدینے سے اسّی (۸۰) میل کے فاصلے پر ہے اور مکے سے دو سو میل کے فاصلے پر. لہذا یہ مسلمانوں کی زد میں تھا. ادھر جنوب کی سمت میں جو قافلہ یمن کی طرف جاتا تھا وہ وادی ٔ نخلہ سے ہو کر گزرتا تھا جو مکہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور مدینہ سے اس کا فاصلہ کم از کم تین سو میل کا ہے. لیکن آپؐ نے وادی ٔ نخلہ میں بھی ایک مہم روانہ فرمائی. ان مہموں کا مقصد قریش کو یہ بتا دینا تھا کہ اب تمہاری لائف لائن ہمارے ہاتھ میں ہے. اس کو جدید اصطلاح میں مکہ کی معاشی ناکہ بندی کہیں گے.
یعنی ہم زمین کو چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے مکے کی طرف لا رہے ہیں. مکی دور ہی میں ان قبائل میں بھی اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا. اب گویا کہ اسلام مکے کی طرف دوسرے قبائل سے پیش رفت کر رہا تھا. اب اس کی صورت یہ بنی کہ حضورﷺ نے ان قبائل کے ساتھ معاہدے کر لیے تو حضورﷺ کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا اور قریش کا گھٹتا چلا گیا.